[Reader-list] Ghalib and ...

yasir ~يا سر yasir.media at gmail.com
Thu Jul 3 17:38:51 IST 2008


fwd



Source:
http://www.voanews.com/urdu/2008-06-26-voa7.cfm?renderforprint=1&textonly=1&&TEXTMODE=1&CFID=8370031&CFTOKEN=34957103











     *قیامت کے یہ نامے ۔۔۔ غالب اور کارل مارکس کی خط و کتابت* *عابدہ رپلی
واشنگٹن
June 26, 2008
* *


آج سے پندرہ برس قبل لندن کی مشہور انڈیا آفس لائبریری میں مغلیہ دور کا ایک
کرم خوردہ مخطوطہ اٹھایا تو اس کی جلد سے ایک زرد شکستہ کاغذ فرش پر گر پڑا۔
اٹھایا تو آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ سوادِ خط اور اندازِ بیان جانا پہچانا تھا۔
رہا سہا شک و شبہ خط کے آخر میں غالب کی مہر دیکھ کر دور ہو گیا۔

 گھر آ کر خلیق انجم کی مرتبہ خطوطِ غالب کی دونوں جلدیں چھان ماریں مگر ان میں
یہ خط کہیں نظر نہیں آیا۔ ایک اور چونکا دینے والی بات تھی کہ خط مشہور جرمن
فلسفی کارل مارکس کے نام تھا، جب کہ غالب پر لکھی جانے والی کسی تحریر میں اس
بات کا ذکر نہیں ہے کہ غالب اور مارکس کے درمیان کسی قسم کا رابطہ رہا ہو۔

 خط سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ مارکس کے خط کا جواب ہے۔ اب یہ فکر لاحق ہو گئی کہ
کسی طریقے سے مارکس کا خط بھی مل جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے۔ سو پندرہ برس
کی تگ و دو کے بعد بالآخر مارکس کا خط بھی دستیاب ہو گیا۔ اس کے لیے  کتنے
کنووں میں بانس ڈلوانے پڑے، اس کا ذکر پھر کبھی، فی الحال آپ یہ نادر خطوط
ملاحظہ کیجیئے:



کارل مارکس کا خط مرزا غالب کے نام


اتوار 21 اپریل، 1867ء

لندن، انگلستان


ڈئیر غالب:


 پرسوں مانچسٹر سے اینگلز کا خط موصول ہوا جو اس شعر پر ختم ہوتا تھا:
        کوہکن گرسنہ مز دورِ طربگاہِ رقیب
        بے ستوں آئینہٴ خوابِ گرانِ شیریں

 بہت تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ یہ شعر ہندوستانی شاعر مرزا اسد اللہ خان
غالب کا ہے۔ بھئی کمال ہے، ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہندوستان میں
انقلاب کی تحریک اس قدر جلد شروع ہو جائے گی۔ کل تمھارے کلام کا کچھ اور حصہ
بھی ایک لارڈ کی ذاتی لائبریری سے میسر آگیا۔ یہ شعر خوب تھا:

        ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
        دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

 اپنے کلام کے اگلے ایڈیشن میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا کہ اے محنت کشو !
جاگیردار، سرمایہ دار اور مذہبی پیشوا جنت کے خواب دکھا کر تمھاری محنت کا
استحصال کر رہے ہیں۔بلکہ کیا ہی اچھا ہو اگر تم ایک آدھ نظم اس مصرعہٴ طرح پر
کہہ ڈالو کہ:

        دنیا بھر کے مزدورو، متحد ہو جاؤ

میں ہندوستانی اوزان و بحور سے زیادہ واقف نہیں، تم فن کار آدمی ہو ،اس کا وزن
خود ہی درست کر لینا۔ اصل کام تو عوام الناس تک پیغام پہنچانا ہے۔بلکہ میری
مانو تو غزل اور رباعی جیسی فرسودہ اصناف کو چھوڑ کر آزاد نظم کا راستہ اختیار
کرو تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیغامات پس ماندہ اورپسے ہوئے مظلوم
طبقوں تک بھیجے جاسکیں۔

ا ور ہاں، کوہکن گرسنہ والے شعر میں یہ اضافہ کر دینا کہ کوہکن اگر شیریں کو
حاصل کرنا چاہتا ہے تو بزورِ بازو کرے اور فٹ نوٹ میں یہ بھی لکھ دینا کہ کوہکن
پرولتاریہ یعنی محنت کش طبقے کی نمائندگی کرتا ہے، خسرو بُورژوازی یعنی سرمایہ
داری اور جاگیرداری کا سمبل ہے جب کہ شیریں محنت کے پھل کی علامت ہے۔

اس خط کے ہمراہ تمھیں کمیونسٹ مینی فیسٹو کا ہندوستانی ترجمہ بھیج رہا ہوں۔
ساتھ سرمایہ (جلد اول) ہے، افسوس کہ اس کا ترجمہ فی الحال ممکن نہیں۔ اگرپسند
کرو تو اگلی بار کچھ اور لٹریچر ارسال کروں۔ ہندوستان اسوقت انگریز سامراج کا
گڑھ بن چکا ہے۔اور ظلم کی چکی میں پستے ہوئے عوام کو صرف اور صرف ان کی اپنی
متحدہ قوت اس جبر و استبداد کے پنجے سے نجات دلوا سکتی ہے۔ تم ایشیا کے
دقیانوسی فلسفے پڑھنے کے بجائے جدلی مادیت کا مطالعہ کیا کرو اور بادشاہوں اور
نوابوں کے قصیدے لکھنا چھوڑکر عوامی ادب پیدا کرو تاکہ انقلاب کا راستہ ہموار
ہو سکے۔انقلاب تو آکر رہے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ وہ وقت آ
رہا ہے جب شاہ و گدا کی تمیز مٹ جائےگی، خواجہ و بندہ کا امتیاز جاتا رہے گا۔

ہندوستان کو انقلاب کی راہ پر گامزن دیکھنے کا متمنی

تمھارا

کارل مارکس



نامہ ٴغالب بنام کارل مارکس

دوشنبہ 9 ستمبر 1867

میاں کارل مارکس

تمھار نامہ، سمیت کمیو نسٹ مینی فیسٹو اور سرمایہ (جلد اول) کے پچھلے ماہ موصول
ہو گیا تھا۔ جواب کیسے دیتا؟ ایک تو تمھاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں ،
دوسرے اس قدر کمزور ہو گیا ہوں کہ لکھنا تو کجا بولنے تک سے قاصر ہوں:

             مضمحل ہو گئے قوا غالب
             اب عناصر میں اعتدال کہاں

 سامعہ مر گیا تھا، اب باصرہ بھی ضعیف ہو گیا ہے۔ جتنی قوتیں انسان میں ہوتی
ہیں سب ختم ہیں۔ حواس سراسر مختل ہیں، حافظہ گویا کبھی نہ تھا۔ آج مزرا تفتہ کو
خط لکھوایا تو سوچا تمھارے نامے کا جواب بھی ہو جائے۔

فرہاد کے بارے میں تمھارا نظریہ مجھے معلوم نہیں۔تمھارے خط سے خیال ہوتا ہے کہ
تم اسے کوئی مزدور سمجھتے ہو۔ ایسی بات نہیں میاں، وہ تو ایک عاشق تھا مگر غالب
کو اسکے عشق نے متاثر نہ کیا کہ سر گشتہ ٴ خمارِ رسوم و قیود تھا اور مرنے کے
لئے تیشے کا سہار ا ڈھونڈتا تھا۔

اور یہ تم کونسے انقلاب کی باتیں کرتے ہو، انقلاب کو گذرے تو دس برس ہو گئے۔اب
تو فرنگی دندناتا ہے، ہر کوئی اسی کے گن گاتا ہے۔ شاہ و گدا کی تمیز تو کب کی
مٹ چکی، خواجہ و بندہ کا امتیاز بھی جاتا رہا۔ یقین نہ مانو تو دہلی آکر بچشم ِ
خود دیکھ لو۔ چاندنی چوک کے ٹٹ پونجیوں اور قلعہ ٴ معلی کے سابق مکینوں میں فرق
کرنا دشوار ہوا ہے۔ اور پھر دہلی پر ہی کیا مو قوف، ہائے لکھنؤ کچھ نہیں کھلتا
کہ اس بہارستان پر کیا گذری، اموال کیا ہوئے ، اشخاص کہاں گئے۔ اب اور کون سے
انقلاب کی بشارت تم ہمیں دیتے ہو؟

تمھارے خط میں یہ بات بھی مرقوم دیکھی کہ ایسی شاعری پیدا کرو اور ویسی شاعری
پیدا کرو۔ بھلے مانس، شاعری کی نسبت تمھارا یہ خیال قطعی خام ہے کہ یہ پیدا کی
جا سکتی ہے۔

         آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
        غالب  صریرِخامہ نوائے سروش ہے

اور پھر اپنا حال تو ایسا رہا ہے کہ قصیدہ یا سہرا ہی کیوں نہ ہو، آمد کا دریا
بہا چلا آتا ہے۔ جو لفظ ایک مرتبہ نظم ہو گیا، خواہ غزل میں ، خواہ قصیدے میں،
بس گنجینہء معنی کا طلسم ہے! و ہ جو انداز ِ بیان، غالب کا، دنیا بھر سے نرالا
ٹھہرا تو اسی سبب سے!

بادشاہ تو جاتا رہا۔ اب ریاستوں میں جو نواب اور والی مجھ پر نظرِ کرم رکھتے
ہیں، ان کی سرپرستی سے بھی مجھے کیوں محروم دیکھنا چاہتے ہو؟ کسی کی مدح میں دو
چار اشعار رقم کر دوں تو میرا کیا بگڑتا ہے، بس ذرا آتش ِ سیال کا سبب بن جاتا
ہے:

         غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
        پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں

 فلسفہ کیا ہے اور زندگی سے اس کا رابطہ کیا ہے۔یہ ہم سے زیادہ اور کون جانے
گا۔ بھائی میرے، یہ کونسی جدلی مادیت لیے پھرتے ہو؟ فلسفے کا شوق ہے تو ویدانت
اور وحدت الوجود پڑھو اور یہ خالی خولی ہمدردیاں جتانے کے بجائے کوئی کام کر کے
دکھاوٴ۔فرنگستان کے باسی ہو میاں،وائسرائے کے نام ایک سفارشی چٹھی ہی روانہ کرا
دو کہ میری سابقہ پنشن بحال کی جاوے۔ سولہ برس تک کلکتہ کی خاک چھانا کیا مگر
بے سود۔ اب سمندر پار ایک مداح پیدا ہو گیا ہے ۔ کیا خبر آسمان کچھ رنگ بدلے
اور وہ جو شاہ ِ ہند کے بارے میں کہا تھا اب وائسرائے ہند یا ملکہٴانگلستان کی
نسبت کہنے کی جسارت ہووے کہ:

        غالب، وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
        وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

 حواس ساتھ نہیں دے رہے اس لیے بس کرتا ہوں

 عافیت کا طالب

 غالب
*



------------------------------


More information about the reader-list mailing list